kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



حضرت رابعہ بصری
 


اسی گھرمیں رابعہ بصری 97 ھجری کو بصرہ میں پیدا ہوئیں اپنےوالدین کی چوتھی اولاد ہونےکےناطےآپ کا نام رابعہ رکھا گیا۔ آپ نےبچپن سےجوانی تک رنج و الم اور آفات و مصائب کےسوا کچھ نہیں دیکھا۔ابھی چار پانچ سال کی تھیں کہ محبت کرنےوالےوالدین وفات پاگئی۔ 105 ھجری میں بصرہ میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ نہ صرف محبت کےلطیف و نازک جذبات کو بھول گئےبلکہ ان کےسینےنفسانی خواہشوں کےہجوم سےبھر گئےتھی۔ وہ اپنےشکم کی آگ بجھانےکیلئےاپنےہم جنسوں کو ارزاں داموں پر فروخت کرنےلگی۔ اولادیں‘ ماں‘باپ پرگراں تھیں اور اولادوں پر ماں باپ ایک بوجھ تھی۔ بیویاں شوہروں کیلئےباعث آزار تھیں۔۔۔۔ اور بہنیں بھائیوں کیلئےایک مستقل عذاب بن چکی تھیں۔ خاندانی اورعلاقائی رشتوں کا تو ذکر ہی کیا‘ خونی رشتےبھی بےاعتبارہو چکےتھی۔ عجیب نفسانفسی کاعالم تھا۔ ماں باپ اولادوں سےہاتھ چھڑا رہےتھی۔۔۔۔ بھائیوں نےبہنوں سےمنہ پھیر لیا تھا اور دوست ایک دوسرےکوپہنچاننےسےگریزاں تھی۔ بھوک کاعفریت اپنا خونی دہن کھولےکھڑا تھا۔۔۔۔ اورتمام انسانی رشتی‘ احساسات و جذبات‘ عقائد و نظریات اس کی خوراک بنتےجارہےتھی۔
اسی ہولناک فضاءمیں بصرہ کےایک چھوٹےسےخاندان پر قیامت گزر گئی۔ یہاں چار بہنیں رہا کرتی تھیں جن کےماں باپ دنیا سےرخصت ہو گئےتھی۔ بظاہر کوئی نگراں اور کفیل نہیں تھا۔ یہ سب بہنیں مل کر محنت مزدوری کیاکرتی تھیں۔۔۔۔ مگر جب شہر بصرہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو سارےکاروبار دم توڑ گئےاورمزدوریاں ختم ہو گئیں۔ نو عمر لڑکیوں نےدو تین فاقےتو برداشت کر لئےمگر جب بھوک حد سےگزری تو کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔ بھیک تک کی نوبت آگئی مگر کوئی کیسےبھیک دیتا کہ دینےوالےکےپاس خود کچھ نہیں تھا۔ یہ تمام بہنیں زرد چہروں اورپتھرائی ہوئی آنکھوں سےآسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ بصرہ کامشہور تاجر عتیق ادھر سےگزرا۔ فاقہ زدہ بہنوں نےآسودہ حال شخص کےسامنےدست سوال دراز کر دیا۔
”خدا کیلئےہمیں کچھ کھانےکو دو۔ ورنہ کچھ دیر بعد ہماری سانسوں کا رشتہ ہمارےجسموں سےمنقطع ہو جائےگا۔“
تاجر عتیق نےسب سےچھوٹی بہن کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی۔ ”لڑکی! تجھےبھوک نہیں ہی۔“
”بہت بھوک ہی۔“ سب سےچھوٹی بہن نےنقاہت زدہ لہجےمیں جواب دیا۔ ”تو پھر کسی سےروٹی کیوں نہیں مانگتی؟“ تاجر نےسوال کیا۔
”جس سےمانگنا چاہئےاسی سےمانگ رہی ہوں۔“ لڑکی نےبڑا عجیب جواب دیا۔
”تو پھر تجھےابھی تک روٹی کیوں نہیں ملی؟“ تاجر عتیق نےحیران ہو کر دوسرا سوال کیا۔
”جب وقت آئےگا تو وہ بھی مل جائےگی۔“ لڑکی کا انداز گفتگو مبہم تھا مگر لہجےسےبڑی استقامت جھلک رہی تھی۔
تینوں بڑی بہنیں چھوٹی بہن کی بےسروپا باتوں سےبیزار تھیں۔ اس لئےجھنجھلا کر بولیں۔ ”یہ ہم سب کاوقت برباد کر رہی ہی۔ آپ اسےیہاں سےلےجائیں۔“
”یہ لڑکی بڑےکام کی ہی۔ میں اسےلےکر ہی جائوں گا۔“ تاجر عتیق نےتینوں بہنوں کومخاطب کرتےہوئےکہا۔۔۔۔ اور پھر ایک مخصوص رقم ان کےحوالےکر دی۔
”چلو!لڑکی“ تاجر نےچھوٹی بہن سےکہا۔ ”اب تم میری ملکیت ہو۔“
لڑکی نےاپنی بہنوں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھےمگر ہونٹوں پر حرف شکایت نہیں تھا۔ وہ تاجر عتیق کےساتھ چپ چاپ چلی گئی۔ اس نےکئی بار مڑ کر دیکھا۔ لڑکی کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال تھا۔
”کیا تم نےچند روٹیوں کیلئےاپنی چھوٹی بہن کو فروخت کر دیا ہی“۔

 




Go to Page :

*    *    *

 

Download the PDF version for Offline Reading. (Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is required to read Digital PDF Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)