kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



حضرت مولانا جلال الدین رومی
 


ایک بار مولانا اپنےمریدوں کےہمراہ ایک تنگ گلی سےگزر رہےتھی۔ اتفاق سےوہاں ایک کتا اس طرح سو رہا تھا کہ راستہ بند ہو گیا تھا۔ مولانا چلتےچلتےرک گئےاچانک ایک شخص جو مولانا روم کو جانتا تھا گلی کی دوسری جانب سےآرہا تھا۔ اس نےمولانا کو کھڑا دیکھ کر کتےکو پتھر مارا۔ وہ چیختا ہوا بھاگ گیا۔۔۔۔ راستہ تو صاف ہو گیا لیکن مولانا کےچہرےپر خفگی کےآثار صاف نظر آرہےتھی۔ جب وہ شخص قریب آیا تو آپ نےاس سےفرمایا۔ ”اےبندہ¿ خدا! تو نےایک جانور کی دل آزاری کر کےکیا پایا؟ میں کچھ دیر اور اس کےجاگنےکا انتظار کر لیتا۔“
مولانا روم کےمسلک میں دل آزاری گناہ عظیم تھی۔ اگر کوئی چیونٹی بھی آپ کےپیروں کےنیچےآکر کچلی جاتی تو مولانا کو بہت دکھ ہوتا اکثر اوقات لوگوں کا دل رکھنےکیلئےبڑےسےبڑا نقصان برداشت کر لیتی۔ ایک مرتبہ مولانا روم بازار سےگزر رہےتھی۔ لوگوں نےآپ کو آتا دیکھا تو اپنی اپنی دکانوں پر احتراماً کھڑےہو گئےجب کچھ لڑکوں کی آپ پر نظر پڑی تو وہ بھاگتےہوئےآئےاور آپ کےہاتھوں کو بوسہ دینےلگےمولانا بچوں کو خوش کرنےکیلئےجواباً ان کےہاتھ چوم لیتی۔ ایک لڑکا کسی کام میں مشغول تھا اس نےچلا کر کہا۔ ”مولانا ابھی جائیےگا نہیں میں ذرا کام سےفارغ ہو جائوں۔“ مولانا نےاس کی آواز سنی اور مسکرانےلگےپھر آپ بہت دیر تک اس لڑکےکےانتظار میں کھڑےرہےجب وہ اپنےکام سےفارغ ہو کر آیا تو اس نےمولانا کےہاتھوں کو بوسہ دیا تب آپ تشریف لےگئی۔
اسی طرح ایک دن بھرےبازار میں دو آدمی لڑ رہےتھےاور ایک دوسرےکو فحش گالیاں دےرہےتھےان میں سےایک کہہ رہا تھا۔ ”او شیطان! اگر تو ایک کہےگا تو دس سنےگا۔۔۔۔“
مولانا روم اس طرف سےگزر رہےتھےآپ اس شخص کےقریب گئےاور فرمایا۔ ”بھائی تمہیں جو کچھ کہنا ہےمجھےکہہ ڈالو اگر تم ہزار کہو گےتو جواب میں ایک بھی نہ سنو گی۔“ مولانا کےحسن کلام نےدونوں کو شرمندہ کر دیا یہاں تک کہ وہ باہمی رنجش کو ختم کر کےآپس میں دوست ہو گئی۔
یہ تھےحضرت مولانا جلال الدین رومی جو نصف صدی تک بےشمار بندگان خدا کا روحانی علاج کرتےرہےمگر یہ قدرت کا ایک عجیب نظام ہےکہ وقت معلوم پر بیماروں کی طرح مسیحا کو بھی دنیا سےرخصت ہونا پڑتا ہی۔۔۔۔ اور اب وہ سنگین وقت نزدیک آپہنچا تھا۔ یہ 670ھ کا واقعہ ہی۔ ایک دن قونیہ میں زبردست زلزلہ آیا۔ لوگ خوف و دہشت سےچیخنےلگےپھر مسلسل چار دن تک زلزلےکےشدید جھٹکےمحسوس کئےجاتےرہی۔ شہر میں ایک قیامت سی برپا تھی قونیہ کےکسی باشندےکو بھی اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں تھا کہ کب زمین میں شگاف پڑےاور وہ اپنےسازوسامان کےساتھ ملک عدم روانہ ہو جائی۔ اس مسلسل اذّیت ناک صورتحال سےگھبرا کر اہل شہر مولانا روم کی خانقاہ میں حاضر ہوئےاور آپ سےدعا کی درخواست کرنےلگی۔
مولانا روم نےحسب عادت دلنواز تبسم کےساتھ فرمایا۔ ”زمین بھوکی ہےلقمہ¿ تر چاہتی ہی۔ انشاءاللہ اسےاپنےمقصد میں کامیابی حاصل ہو گی۔“ پھر لوگوں کو تسلی دیتےہوئےکہا۔ ”کوئی شخص ہراساں نہ ہو جس پر گزرنا ہےگزر جائےگی۔“ انسانی ہجوم مطمئن ہو کر اپنےگھروں کو چلا گیا۔ مولانا کےاس ارشاد کےبعد ہی زلزلہ تھم گیا تھا۔ شہر قونیہ کی گم شدہ رونق لوٹ آئی تھی۔۔۔۔ مگر دوسرےدن ایک خبر نےلوگوں سےیہ ساری خوشیاں چھین لیں۔ مولانا روم اچانک شدید بیماری کا شکار ہو گئےتھےپورا شہر عیادت کیلئےامڈ آیا۔ بہترین طبیبوں نےعلاج کیا لیکن مرض لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا۔ مریدوں اور خادموں نےرو رو کر کہا۔ ”آپ کی دعائوں سےبےشمار مریضوں نےصحت پائی ہےآج آپ ہماری خاطر اپنی صحت کیلئےدعا فرما دیجئی۔“ مولانا نےعقیدت مندوں کی گفتگو سن کر دوسری طرف منہ پھیر لیا حاضرین سمجھ گئےکہ وقت آخر قریب آپہنچا ہی۔۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا دوسرےدن غروب آفتاب سےذرا پہلےمولانا روم اپنےخدا کی وحدانیت اور خاتم النبین اکی رسالت پر گواہی دیتےہوئےرخصت ہو گئی۔
قونیہ میں گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔ ہزاروں انسانوں نےشدت غم میں اپنےگریبان پھاڑ ڈالےجنازہ اٹھا تو انسانوں کا ایک سیل رواں تھا جو اپنےروحانی پیشوا کو آہوں اور اشکوں کا آخری نذر پیش کرتا ہوا قبرستان کی طرف جارہا تھا بادشاہ وقت بھی جنازےمیں شریک تھا۔ میت کےآگےسینکڑوں عیسائی اور یہودی بھی انجیل اور توریت مقدس کی آیات پڑھتےہوئےچل رہےتھی۔ ان غیرمسلموں کی آنکھیں اشکبار تھیں اور ہونٹوں پر جانگداز نوحےتھی۔
بادشاہ نےان عیسائیوں اور یہودیوں کی یہ حالت زار دیکھ کر پوچھا۔ ”تمہیں مولانا سےکیا نسبت ہی۔“
مولانا روم کی عظمت کی یہ ایسی روشن دلیل تھی جسےجھٹلایا نہیں جاسکتا تھا۔ انہیں زیرزمین سوئےہوئےصدیاں گزر گئیں۔ مگر آج بھی یوں محسوس ہوتا ہےجیسےوہ زندہ ہیں۔
 




Go to Page :

*    *    *

 

Download the PDF version for Offline Reading. (Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is required to read Digital PDF Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)