|
گڈریا
(اشفاق احمد)
جیسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو اور اس سے کہہ رہے ہو دیکھ لو، سوچ لو میں
تمہیں.... میں تمہیں بتا رہا ہوں ....سنا رہا ہوں.... ایک دھمکی دئیے جاتے تھے۔ پھر
تڑپ کر ٹھیکریوں پر گرتے اور جفا کم کن جفا کم کن کہتے ہوئے رونے لگتے۔ تھوڑی دیر
میں ساکت و جامد کھڑا رہا اور پھر زور سے چیخ مار کربجائے قصبہ کی طرف بھاگنے کے
پھر کیکروں کی طرف دوڑ گیا۔ داؤ جی ضرور اسم اعظم جانتے تھے اور وہ جن قابو کررہے
تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک جن ان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا۔ بالکل الف لیلیٰ با
تصویر والا جن تھا۔ جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا تو اس نے انہیں نیچے گرا
لیا تھا۔ وہ چیخ رہے تھے جفا کم کن جفا کم کن مگر وہ چھوڑتا نہیں تھا۔ میں اسی
ڈھیلے پر بیٹھ کر رونے لگا.... تھوڑی دیر بعد داؤ جی آئے انہوںنے پہلے جیسا چہرہ
بنا کر کہا۔ ”چل طنبورے“ اور میں ڈرتا ڈرتا ان کے پیچھے ہو لیا۔ راستہ میں انہوں نے
گلے میں لٹکتی ہوئی کھلی پکڑی کے دونوں کونے ہاتھ میں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر
گانے لگے۔
تیرے لمے لمے وال فریدا ٹریا جا!
اس جادو گر کے پیچھے چلتے ہوئے میں نے ان آنکھوں سے سے واقعی ان آنکھوں سے دیکھا کہ
ان کا سر تبدیل ہو گیا ۔ ان کی لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر جھولنے لیگں اور ان کا
سارا وجود جٹا دھاری ہوگیا.... اس کے بعد چاہے کوئی میری بوٹی بوٹی اڑا دیتا، میں
ان کے ساتھ سیرکو ہر گز نہ جاتا!
اس واقعہ کے چند ہی دن بعد کا قصہ ہے کہ ہمارے گھر میں مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اور
اینٹوں کے ٹکڑے آکر گرنے لگے۔ بے بے نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ بچوں کو کتیا کی طرح
داؤ جی سے چمٹ گئی۔ سچ مچ ان سے لپٹ کر گئی اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا
دیا۔ وہ چلا رہی تھی۔ ”بڈھے ٹوٹکی یہ سب تیرے منتر ہیں۔ یہ سب تیری خارسی ہے ۔ تیرا
کالا علم ہے جو الٹا ہمارے سر پر آگیا ہے۔ تیرے پریت میرے گھر میں اینٹیں پھینکتے
ہیں۔اجاڑ مانگتے ہیں۔ موت چاہتے ہیں۔“ پھر وہ زور زور سے چیخنے لگی ”میں مر گئی،
میں جل گئی، لوگوں اس بڈھے نے میرے امی چند کی جان لینے کا سمبند ھ کیا ہے ۔ مجھ پر
جادو کیا ہے اور میرا انگ انگ توڑ دیا ہے۔“ امی چند تو داؤ جی کواپنی زندگی کی
طرح عزیز تھا اور اس کی جان کے دشمن بھلا وہ کیونکر ہو سکتے تھے۔ لیکن جنوں کی خشت
باری انہیں کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ جب میں نے بھی بے بے کی تائید کی تو داؤ
جی نے زندگی میں پہلی بار مجھے جھڑک کر کہا ” تو احمق ہے اور تیری بے بے ام
الجاہلین.... میری ایک سال کی تعلیم یہ اثر ہوا کہ تو جنوں بھوتوں میں اعتقاد کرنے
لگا۔ افسوس تو نے مجھے مایوس کردیا، اے وائے کہ تو شعور کی بجائے عورتوں کے اعتقاد
کا غلام نکلا۔ افسوس.... صد افسوس“ بے بے کو اسی طرح چلاتے اور داؤ جی کو یوں
کراہتے چھوڑ کر میں اوپر کوٹھے پر دھوپ میں جا بیٹھا.... اسی دن شام کو جب میں اپنے
گھر جا رہا تھا تو راستے میں رانو نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ کانی کر کے پوچھا
”سنا بابو تیرے کوئی اینٹ ڈھیلاتو نہیں لگا؟ سنا ہے تمہارے پنڈت کے گھر میں روڑے
گرتے ہیں۔“
میں نے اس کمینہ کے منہ لگنا پسند نہ کیا اور چپ چاپ ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔ رات
کے وقت داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی پراپوزیشن سنتے ہوئے پوچھنے لگے ”بیٹا کیا تم
سچ مچ جن، بھوت یا پری چڑیل کو کوئی مخلوق سمجھتے ہو؟“ میں نے اثبات میں جواب دیا
تو وہ ہنس پڑے اور بولے واقعی تو بہت بھولا ہے اور میں نے خواہ مخواہ جھڑ ک دیا۔
بھلا تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ جن ہوتے ہیں اور اس طرح سے اینٹیں پھینک
سکتے ہیں۔ ہم نے جو دلی اور پھتے مزدور کو بلاکر برساتی بنوائی ہے، وہ تیرے کسی جن
کو کہہ کر بنوا لیتے۔ لیکن یہ تو بتا کہ جن صرف اینٹیں پھینکنے کا کام ہی کرتے ہیں
کہ چنائی بھی کرلیتے ہیں۔“ میں نے جل کر کہا ”جتنے مذاق چاہو کرلو مگر جس دن سر
پٹھے گا اس دن پتہ چلے گا داؤ“۔ داؤ جی نے کہا ”تیرے جن کی پھینکی ہوئی اینٹ سے
تو تا قیامت سر نہیں پھٹ سکتا اس لئے کہ وہ نہ ہے نہ اس سے اینٹ اٹھائی جا سکے گی
اور نہ میرے تیرے یا تیری بے بے کے سر میں لگے گی۔“
پھر بولے۔ ”سن! علم طبعی کا موٹا اصول ہے کہ کوئی مادی شے کسی غیر مادی وجوسے حرکت
میں نہیں لائی جا سکتی.... سمجھ گیا۔“
”سمجھ گیا“ میں نے چڑ کر کہا۔
ہمارے قصبہ میں ہائی سکوت ضرور تھا لیکن میٹرک کا امتحان کا سنٹر نہ تھا۔
|